شندور گلگت کی شہ رگ ۔۔ وزیر اعلیٰ کا دو ٹوک موقف۔ | محمد شراف الدین |PASSUTIMESاُردُو

gbدشندور گلگت کی شہ رگ ۔۔ وزیر اعلیٰ کا دو ٹوک موقف۔ تحریر : محمد شراف الدین |PASSUTIMESاُردُو

گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الر حمان صاحب نے گزشتہ ایام ایک نجی ٹی وی چینل کو دئے گئے انٹرویو کے دوران دو ٹوک موقف اختیار کر تے ہوئے کہا کہ شندور گلگت بلتستان کی شہ رگ ہے ۔ اور ہم شندور سے کسی بھی صورت دستبر دار نہیں ہو ں گے ۔ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ ہم شندور کو پاکستان سے الگ نہیں کرتے بلکہ پاکستان کا ہی حصہ سمجھتے ہیں اور اس تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں کہ شندور کس کا ہے۔تاریخی حقائق اور ریکارڈ کے مطابق شندور گلگت بلتستان کاحصہ ہے۔اگر کشمیر کے مسئلہ پر بھارت سے بات ہوسکتی ہے تو شندور کے تنازعہ پر کے پی کے حکومت سے کیوں بات نہیں ہوسکتی؟
قارئیں کرام ! حافظ حفیظ الرحمن صاحب گلگت بلتستان کے پہلے ریاستی سربراہ ہیں جنہو ں نے شندور کو گلگت بلتستان کی شہ رگ قرار دیکر دو ٹوک موقف اختیار کیا اور بتادیا کہ اگر کسی کی شہ رگ کاٹ دی جائے تو اس کی موت واقع ہو تی ہے جی بی کے عوام اپنی اس موت کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ وزیر اعلیٰ صاحب کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہم شندور کو پاکستان سے الگ ہر گز نہیں کر ر ہے ہیں اور شندور کو پاکستان ہی کا حصہ سمجھتے ہیں کیونکہ گلگت بلتستان پاکستان کا ہے اور شندور جی بی کا ہوا تو پاکستان سے الگ تو نہیں ہو انا۔۔۔۔؟ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ صاحب نے تاریخی حقائق اور ریکارڈ کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ حکومت پاکستان کشمیر کے تنازعہ پر ہندوستان حکومت سے بات کرسکتی ہے تو شندور تنازعہ پر کے پی کے حکومت سے جی بی حکومت کیوں بات نہیں کر سکتی۔کیو نکہ کے پی کے والے ہمارے بھائی ہیں اور دو بھائیو ں کے مابین اگر کوئی تنازعہ کھڑا ہوتا ہے تو مل بیٹھ کے اس کا حل نکال سکتے ہیں ۔ اگر مل بیٹھ کر حل نکالنے میں کوئی دشواری پیش آتی ہے تو پھر بڑوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان دونو ں بھائیوں کے مابین تنازعہ کا حل نکال لیں۔بالکل اسی طرح شندور کے معاملے میں بھی اگر جی بی اور کے پی کے میں کوئی اتفاق پیدا نہیں ہوتا ہے تو پھر وفاق کی ذمہ دار ی بنتی ہے کہ وہ اس معا ملے کے حل کیلئے اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔حل نکالتے وقت تاریخی حقائق اور قدیم ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے تو یہ فیصلہ نہ صرف دونوں فرقین قبول کریں گے بلکہ عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔
قارئین کرام! وزیر اعلیٰ صاحب نے اس حوالے سے دو ٹوک موقف اختیار کر کے نہ صرف جی بی کے عوام کے حقیقی نمائندہ ہو نے کا ثبوت دیاہے۔بلکہ اس تنازعہ کے حل کیلئے تاریخی حقائق اور قدیم ریکارڈ کی بات کر کے شندور تنازعہ کے اس کیس میں اپنے موقف کو وزن دار بھی بنادیا ہے۔اگر تاریخی حقائق اور قدیم ریکارڈ کے مطابق شندور تنازعہ کا حل تلاش کیا جائے تو اس میں جیت گلگت بلتستان کی ہی ہو گی ۔ کیونکہ ہماری تاریخ اور قدیم ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ شندور ضلع غذر کے عوام کی ملکیت ر ہا ہے ۔ 1916 ء کی تاریخ بتاتی ہے کہ گوپس سے لیکر برینس گاؤ ں تک حکیم امیر حمزہ کی حکومت تھی اور پنجلشت کا علاقہ بھی گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں شامل ہو ا کرتا تھا۔1600ء سے لیکر 1840 ء تک حکیم امیر حمزہ ،حکیم میر مہدی ، حکیم امیر حمزہ ( دوئم)، حکیم میر جلال، حکیم مہر بان، حکیم میر اسی ، حکیم لام خان اور حکیم میر حکیم نے گوپس سے لیکر پرینس گاؤں تک حکومت کیں جو کہ شندور کے مقام سے آگے چترال کی جانب واقع ہے۔ ان ادوار میں چترال کے مختلف قبائل کے لوگ ولیئے قوم اور کا کا خیل قوم کو شندور کا قلان دیتے تھے۔ ولیئے قوم کا شمار ضلع غذ ر کے حکمران قوم میں شمار ہوتا تھا جبکہ کا کا خیل قوم کا شمار ضلع غذر کے قدیم باسیوں میں ہوتا ہے۔ 1840ء سے لیکر 1947 ء کے قیام پاکستان تک اور قیام پاکستان کے بعد سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو حکومت تک ضلع غذر کے سوکھے قوم کے حکمران حکیم رحمت ،حکیم مہربان ،حکیم رافل شاہ اور حکیم یعقوب شاہ نے ضلع غذر کے گوپس تا شندور سے آگے برینس گاؤں تک اپنی حکمرانی برقرار رکھی اور چترال والوں سے شندور کا قلان وصول کرتے رہے ہیں ۔قیام پاکستان سے قبل گوپس سے برینس گاؤں تک بشمول شندور غذر کے حکمران حکیم عادل شاہ ، حکیم رحمت اللہ اور حکیم حیات اللہ نے بھی حکومت کی ہے اور چترال والوں سے شندور کا قلان لیتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد یعنی 1977 تک جاری رہا ہے ۔ ان حکمرانوں کے ادوار میں پنجلشت کے مقام پر ایک بہت بڑے کا لے پتھر پر گلگت اور چترال کے حدود کی تعین کی باقاعدہ تحریر درج تھی۔حدود کی تعین والے کالے پتھر پر یہی الفاظ درج تھے کہ اس برجی سے چترال کی جانب کا علاقہ چترال والوں کا حصہ ہے جبکہ گلگت کی جانب کا علاقہ گلگت والوں کا حصہ ہے ۔جب سے سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے ملک سے راجگی نظام کا خاتمہ کردیا تب سے چترال والوں نے شندور کا قلان دینا بھی بند کردیا اور آہستہ آہستہ برینس گاؤں تک قابض ہوگئے۔حدود کی تعین کے اس بہت بڑے کالے پتھر کو توڑ دیا گیا اور شندور تک کی چراگاہ پر بھی قابض ہوگئے ۔
ضلع غذر کے گاؤں گلا غمولی کے حکمران قبیلہ رانا قوم کی ایک بزرگ شخصیت صوبیدار (ر) میر حوس خان فرماتے ہیں کہ میری تاریخ پیدائش 1946 ہے مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ شندور کے مقام پر گوپس کے راجہ حسین علی خان ، یاسین کے راجہ محموب ولی خان اور پونیال کے راجہ جان عالم نے ملکر پولو کھیلا ہے ۔ اور اس دوران شندور میں جہاں اب چترال سکاؤٹس نے تعمیر ات کی ہیں وہاں ٹینٹ لگاکر قیام بھی کرتے تھے۔راجہ حسین علی خان کے زمانے میں نمبردارنیت قبول کا کا خیل قوم، کھو نے قوم اور یغیے قوم کو ساتھ لیکر چترال والوں سے شندور کا قلان لایا کرتے تھے۔اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ نمبردار نیت قبول نے ایک دفعہ چترال کے قبائل سو سپور قوم ، بالیم قوم ، رامن قوم، اور گشٹ قوم والوں سے 80 بکرے قلان لایا تھا۔ان ادوار میں چترال والوں پر کچھ باندیاں بھی عائد تھیں کہ وہ ا پنی مال مویشی شندورلاتے وقت ہتھیار اور کتا نہیں لاسکتے تھے۔ اور شندور سے جاتے وقت معدنیات یعنی قیمتی پتھر وغیرہ لیجانے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر خلاف ورزی کرتے ہوئے چترال کا کوئی شخص اپنے ساتھ ہتھیار لیکرشندور آتا تھا تو اس پر ایک بیل جرمانہ عائد کیا جاتا تھا ۔ کتا ساتھ لانے پر ایک بکرا جرمانہ لگایا جاتا تھا اور معدنیات وغیرہ لیجانے پر ایک بیل اور 3 بکرے جرمانے سزا ہو تی تھی اور یہ جرمانے گوپس کے راجا کیت خزانے میں جمع ہو تے تھے ۔شندور کا پولو گراؤنڈ گلگت کے پولٹیکل ایجنٹ کاف صاحب نے تعمیر کرایا تھا۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ شندور پولو گراؤنڈ تعمیر کرنے کی ذمہ داری گوپس کے اس وقت کے راجا مراد خان کو سونپ دی گئی تھی۔شندور پولو گراؤنڈ کا نام مہر پل رکھا گیا تھا ۔اس گراؤنڈ کے ساتھ ہی ایک اور گراؤنڈبنایا گیا جس کا نام” مس جینالی “رکھا گیا ۔ یہ کھوار زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “چاندنی رات ” کی ہے اور اس گراؤنڈ میں چاندنی رات کو گوپس کے راجہ ،یاسین کے راجہ اور پونیال کے راجہ کے مابین پولو فیسٹول ہوتا تھا ۔ جواب بھی کھنڈرات کی شکل میں مو جو د ہے ۔شندور پولو گراؤنڈ کی تعمیر و مرمت 1980میں اسوقت کے ڈسٹرکٹ کونسل گلگت کے چئیر مین لطیف حسن مرحوم نے کرائی اور انہوں نے ہی گلگت و چترال کے پولو ٹیموں کے مابین ٹورنامنٹ بھی کرایا۔ بعدمیں چترال سکاؤٹس والے شندور پر قابض ہو گئے اور گلگت بلتستان کے عوام کو فرقہ واریت کی دلدل میں پھنسا کر اس سے توجہ ہٹائی گئی۔ اور اب شندور متنازعہ سیاحتی مقام بن چکا ہے ۔ تاہم اس تنازعہ کے حل کیلئے اگر غیر جانبدار کمیشن بھٹائی جائے اور وفاق کرداراداکرے تو گلگت بلتستان کا کیس بہت ہی مضبوط ہو گا ۔جس کیلئے ہمارے محترم وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الر حمن بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے انہیں تاریخی و جغرافیائی حقائق پر مبنی دلائل کو مظبوط موقف کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔


Leave a comment